الیکشن مئی۲۰۱۳ء کو ملک کا تاریخی الیکشن تصورکیا جا رہا ہے ان انتخابات میں جہا ں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں وہاں بہت کچھ پچھلے انتخابات جیسا ہی رہاملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کے لیے جبکہ سندھ اسمبلی کی 130 نشستوں کے لیے انتخابات لڑے گئے۔انتخابات میں ٹرن آؤٹ %60 سے کراس کر گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے 1970ء کے انتخابات کے بعد ایسا ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔اتنا ٹرن آؤٹ ہو نے کے باوجود متوقع انقلاب تو نہ آسکانہ ہی چہرے بدلے لیکن کچھ جماعتوں کی تاریخ ضرور بدل گئی۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت پی پی پی تیسرے نمبر پر جا پہنچی جبکہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں واضح اکژیت حاصل کر کے پہلے نمبر پر جگہ حا صل کر لی جبکہ ملک کی ابھرتی ہوئی جماعت پی ٹی آئی بڑی جماعتوں میں اپنی جگہ بنا تے ہوئے دوسرے نمبر پر آگئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کیے گئے انتظامات میں بہت سی خامیاں دیکھی گئیں اوران کی جانب سے کیئے گئے شفاف انتخابات کے دعوے دھرے رہ گئے۔
ویمن میڈیا سینٹر کی الیکشن مانیٹرنگ ٹیم کو کراچی کے بہت سے حلقوں میں انتخابی انتظامات کی ناقص صورتحال اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بنائے گئے قوانین کی پامالی نظر آئی۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں مو بائل فون کا استعمال جاری رہا جبکہ ای سی پی کے احکامات کے بر عکس کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر cctv کیمرے نصب نہیں دکھا ئی دیے۔ پولیس کی واضح نفری پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر نظر آئی لیکن رینجرز کی تعداد کم اور فوج صرف فلیگ مارچ کی حد تک ہی نظر آئی۔
NA-249 حلقہ
ان حلقوں میں انتظامات کی ناقص صورتحال دیکھنے میں آئی۔ NA-249 کے پولنگ اسٹیشن شہید بے نظیر بھٹو لیاری میں ووٹرز کی بڑی تعدادہونے کے باوجود پولنگ کا عمل2گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا ۔پولنگ اسٹاف نے تاخیر کا سبب انتخابی سامان کی دیر سے فراہمی بتایاجبکہ وہاں موجود لیاری کے سینئر نائب صدر الطاف حسین میمن نے wmc کی نیوز ٹیم کو بتایا کہ انہیں ووٹ ڈالنے کی حق سے محروم کیا جا رہا ہے انتخابی عمل دیر سے شروع کیا گیا اور زیادہ تر ووٹرز کا اندراج ہی غلط کیا گیا ہے۔انھوں نے احتجاج کیا کہ کھلے عام دھاندلی کی جا رہی ہے کھلی ہوئی سیل والے بیلٹ باکسز دیئے گئے ہیں ۔انھوں نے ایم کیو ایم پر الزام لگایا کہ اس نے انتخا بی عمل ہائجیک کر لیا ہے اور بیوروکریسی ٹیکنیکل کھیل کھیل رہی ہے۔
NA-249 اور PS – 110, 111 :
لیاری کے پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ گرلزپرائمری اینڈسیکنڈری اسکول سینگولین میں بھی یہی صورتحال نظرآئی۔ نیوز ٹیم کے اندر داخل ہوتے ہی وہاں ہلچل پھیل گئی کیونکہ وہاں دھاندلی سے ووٹنگ کا عمل جا ری تھا۔مرد ،خواتین اور نوجوان ووٹرز کافی تعداد میں موجود تھے جبکہ اس علا قے میں خواتین ووٹرز کو گاڑیوں میں پولنگ اسٹیشنز تک لے جا تے ہوئے بھی دیکھا گیا جو کہ الیکشن کمیشن کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
NA-250 حلقہ
NA-250 کا حلقہ سب سے زیادہ اہم حلقہ تھا جس میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت ، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی اور جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان کا مقابلہ تھا۔ اس علاقے میں سٹی کورٹ کے باہر ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ہمراہ خوش بخت شجاعت ا حتجاج کر رہی تھیں۔ ان کے حامیوں کی جا نب سے یہ نعرے لگائے جا رہے تھے کہ پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی مل کر انتخابات میں دھاندلی کر رہی ہیں اور ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عارف علوی پر الزام لگایا گیا کہ وہ سٹی کورٹ سے بیلیٹ باکسز اور بیلیٹ پیپرز لے گئے ہیں ۔بعد ازخوش بخت شجاعت کو اندر جانے دیا گیا جبکہ میڈیا اور کچھ لوگوں کو اندر جانے سے روک دیا گیا۔
عبداللہ شاہ غازی کلفٹن میں واقع NA-250 اور PS-112 کے پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ گرلز پرائمری اینڈسیکنڈری اسکول میں بھی صورتحال کچھ الگ نہ تھی۔ووٹرز کی لمبی قطاریں صبح ۸ بجے سے سخت دھوپ میں ووٹ ڈالنے کے لیے لگی ہوئی تھیں جبکہ پولنگ عملہ بہت سست روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پایا گیا۔ لائن میں کھڑے ایک ووٹر عمر خان نے WMC نیوز ٹیم کو بتایا کہ پولنگ کا عمل صبح 9:30 بجے شروع کیا گیا ہے جبکہ عملہ بھی پورا موجود نہیں۔اس نے بتایا کہ وہ ملک کے حالات سے تنگ آکر ووٹ ڈالنے کے لیے نکلا ہے اور تبدیلی کا خواہاں ہے۔
PS 128,NA-255 حلقہ
NA-255 کے ایک پوش علا قے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے پولنگ اسٹیشن نیلم ہائی اسکول میں کافی تعداد میں ووٹرز لائنوں میں موجود تھے جن میں واضح اکژیت نوجوانوں کی تھی۔ ایک خاتون ووٹر نے نیوزٹیم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے پولنگ کا عمل شروع ہوا ہے۔ اس پولنگ اسٹیشن میں بھی موجود نوجوانوں غرض کہ ہر فرد کو ہی موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ ایک فرق یہ دیکھنے میں آیا کہ وہاں صرف مرد و خواتین کے ہی پولنگ بوتھ الگ نہیں تھے بلکہ امیر اور غریب کے بھی پولنگ بوتھ علیحدہ بنائے گئے تھے۔ PS-128 کے پریزائڈنگ آفیسر اللہ وڈایو چنّا سے اس تفریق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلی عہدیداروں کی جانب سے الگ الگ بوتھ بنانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
11مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں جہاں ووٹرزکا واضح ٹرن آؤٹ دیکھنے میںآیا وہیں دھاندلی کے بھی سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مجموئی طور پر امن و امان کی صورتحال کسی حد تک بہتر تھی۔ صبح کے وقت زیادہ تر میڈیکل اسٹورز کھلے ہوئے نظر آئے اور کچھ دکانیں، بیکریز اور پیٹرول پمپز بھی کھلے ہوئے دکھائی دیئے۔ لیکن پو لنگ ا سٹیشنز میں پولنگ کے ناقص انتظامات، عملے کی عدم موجودگی ، قابلِ اعتراض رویّے اور دھاندلی کی وجہ سے کراچی کے انتخابات پربرا ثر پڑا جس کا سب سے زیادہ اثر کراچی کے حلقے NA-250 پر ہوا۔ سب سے نمایاں بات یہ دیکھنے میں آئی کہ لوگ دہشتگردی سمیت ہر خوف کو پسِ پشت ڈال کر تبدیلی کی اْمید لیے ووٹ ڈالنے اپنے گھروں سے نکلے اور ان میں کافی جوش و خروش بھی پایا گیا۔
(فریال علی ، خصوصی نمائندہ ڈبلیو ایم سی برائے کراچی )