سپریم کورٹ نے کراچی کی مخصوص صورتحال کا حوالہ دیتے ہو ئے نسلی جھگڑوں اور زمین کے تنازعات کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے انتظامی یونٹ کی حدود اور دوسری کمیونٹیز کی نئی حد بندیاں کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ” نو گو ایرئز”کو ختم کیا جاسکے۔ اس نئی حلقہ بندیوں سے علاقوں سے سیاسی اجارہ داری ختم کرنے ،آبادی کو یک رنگ بنانے اور علاقوں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرانے میں مدد ملے گی ۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہو ئے ملک کے معاشی حب کراچی میں حلقہ بندیوں کے لیے ووٹر لسٹوں کی از سر نو تصدیق کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔کراچی میں ووٹر لسٹوں کی از سر نو تصدیق اور حلقوں کی نئی حد بندیوں کا عمل شروع ہو تے ہی شر پسند عناصر سر گرم ہو گئے ہیں ۔کراچی میں کچھ سیاسی عناصر نے لوگو ں سے شناختی کارڈ لینا شروع کر دئیے ہیں ۔رہائشیوں نے الیکشن کمیشن کو شکایت کی ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے برعکس عملے کے ساتھ سیکورٹی اہلکار ساتھ نہیں ہیں ۔الیکشن کمیشن نے ایک اعلانیہ کے ذریعے، کراچی میں لوگو ں سے شناختی کارڈ وصول کرنے کا سختی سے نوٹس لیا ہے ۔الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کراچی کے شہریوں سے غیر قانونی طورپر شناختی کارڈ لیے جارہے ہیں ۔ ترجمان نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ شہری متعلقہ حکام کے علاوہ شناختی کارڈکسی کے حوالے نہ کریں اور تصدیقی عملے کے ساتھ تعاون کریں الیکشن کمیشن کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ تصدیقی عملے کو شناختی کارڈ اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔
ووٹر فہرستوں کی تصدیقی عمل دس جنوری سے شروع ہوا ہے جو یکم فروری تک جاری رہے گا ۔سندھ کے الیکشن کمیشنر محبوب انور نے میڈیا کو بتایا تھا کہ کراچی میں خانہ شماری کا مکمل کام چودہ جنوری تک مکمل ہو جائے گا اور اس کے بعد پندرہ جنوری سے کراچی میں گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق اور نئے ووٹر ز کا اندراج کا کام شروع کیا جائے گا جو یکم فروری تک جاری رہے گا ۔ الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹر کے گھر تین بار رابطہ کریگا اور اگر اس دوران بھی تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہو پایا تو ووٹ کا لعدم قرار دیا جائے گا ۔نو جنوری کو پریس کانفرنس کے دوران صوبائی الیکشن کمیشنر محبوب انور نے بتا یا تھا کہ تصدیق کے عمل میں متحدہ قومی مومنٹ سمیت تمام جماعتیں تعاون کریں گی۔انہو ں نے تمام اسٹیک ہولڈرز ، کراچی کے شہریوں اور سول سو سائٹی سے اپیل کی کہ الیکشن کمیشن کے عملے کے ساتھ تعاون کیا جائے کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر مقررہ وقت تک یہ کام ممکن نہیں۔
وزرات دفاع نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر کراچی میں ہونے والے ووٹر ز کی تصدیقی عمل میں الیکشن کمیشن کے عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے فو ج تعنیات کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ گھر گھر جا کر ووٹروں کی تصدیق کے لیے عملے کے ساتھ فوج کے علاوہ فرنٹےئر کور اور رینجرز کے اہلکار بھی سیکیورٹی کی غرض سے عملے کے ہمراہ ہو نگے ،تاہم فوجی جوان گھر گھر جا کر ووٹروں کی تصدیق نہیں کریں گے ۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا حکومت نے کراچی میں ہو نے والی تصدیقی عمل کا سو دہ کر لیا ہے ؟ اس بات کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ فوج کو ووٹروں کی تصدیق و اندراج کے عمل سے دور رکھنے کے حکم سے نہ صرف شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری کے امکانات ختم ہونگے بلکہ از سر نو ووٹر لسٹوں کی تیاری کا عمل سیاسی اثر و رسوخ کی پھینٹ چڑھنے اور فائدے ضائع ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے ۔اس فیصلے سے ازسر نو تیار کی جانے والی فہرستیں ایک بار پھر مشکوک ہو جائیں گی۔
دنیا بھر میں باقی جمہوریتی ممالک میں ہر دس سال بعد یہ عمل دہرایا جاتا ہے ۔ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور نئی گزشتہ پانچ برس سے ملتوی ہو رہی ہے ۔ ۔محکمہ مردم شماری سینس ڈپارٹمنٹ نے کراچی میں انتخابی حلقوں کی ازسر نو حد بندی کے لیے تمام نقشے اور تفصیلات الیکشن کمیشن کے حوالے کر دی تھیں تاہم آئندہ انتخابات سے قبل مردم شماری کرانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ احکام کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہو ئے عام انتخابات سے قبل کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنا قابل عمل ہے ۔ یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے قبل ملک بھر میں مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ نے سپریم کو رٹ کے فیصلے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حکم کے خلاف کورٹ میں اپیل بھی دائر کی تھی۔عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی لارجر بینج نے کراچی امن و امان کیس کی سماعت کے دوران کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنے کا حکم دیا تھا ۔ایم کیو ایم کے موقف کو بیان کرتے ہو ئے بیریسٹر فراغ نسیم نے بیان دیا تھا کہ پارٹی کو کورٹ کے حکم پر کو ئی اعتراضات نہیں ہے لیکن قانون کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کا نفاذمردم شماری کے بغیر عمل میں نہیں لایا جاسکتا ۔ایم کیو ایم نے اپنا موقف واضح کرتے ہو ئے کہا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ کراچی میں امن و امن کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا ضروری ہے۔
سپریم کوٹ کے پانچ رکنی پینج نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں مشترکہ آبادی پر مشتمل ہو نا چاہیے تا کہ سیاسی پولرائزشن سے بچا جا سکے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ کراچی میں ووٹر لسٹوں کی از سر نو تصدیق کی جائے ۔سیاسی جماعتوں نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش کی تھیں جن میں کچھ حلقوں کو کم کرنے کچھ کو بڑھانے کی تجاویز دی تھی ۔سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں موجودہ حد بندیاں منصفانہ طریقے سے نہیں کی گئی ہیں کچھ علاقوں کو جو اس سے ملحقہ نہیں تھے انھیں صرف مخصوص سیاسی جماعت یا گروپ کے فائدے کے لیے ملایا گیا ہے ۔
آرٹیکل 222الیکٹورل لاء میں درج ہے کہ” ا لیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقوں کی حد بندی کی جائے گی۔کمیشن کسی بھی وقت ترامیم تبدیل کرنے کی تجویزاور حلقوں کی حدو د بندیوں کو تبدیل کرسکتا ہے جہاں یہ ضروری سمجھے وہاں ۔1974کے “the delimtation of constituencies act”کے مطابق حد بندیاں آخری مردم شماری کی بنیاد پر کی جائیں گی ۔
باکس آئیٹم
بلا شبہ سپریم کورٹ کی جانب سے دئیے گئے عدالتی فیصلے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ شفاف الیکشن کی خواہ ہے ۔لیکن سپریم کورٹ نے صرف کراچی میں دھاندلی اور سیاسی پولرائزشن روکنے کے لیے متحرک کیو ں دکھائی د ے رہی ہے بلاشبہ ووٹروں کی از سر نو تصدیق اور نئی حلقہ بندیاں قابل تعریف اقدامات ہیں لیکن ان کا نفاذ پو رے ملک میں کیو ں نہیں کیا گیا خانہ شماری کا عمل صرف کراچی تک ہی کیو ں محدو د رکھا گیا ہے اور جو جماعتیں کراچی میں حلقہ بندیوں کی از سر نو تصدیق کی خواہش مند ہیں وہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں اس کا نفاذ کیو ں نہیں چاہتی جب کے عوام پورے پاکستان میں غیر جانبداررنہ اور شفاف الیکشن کے خواہ ہیں