پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں باشعور اور ترقی پسند لبرل طبقے کو اپنے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی بچانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ یہ ہمارے الفاظ نہیں بلکہ بیرسٹر محمود مرزا کے الفاظ ہیں۔لاہور میں جب مینار پاکستان پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا جلسہ ہو رہا تھااس وقت ہم نے پاکستان کے نامورمفکر ڈاکٹر مبارک علی کو ملنے کیلئے فون پر گذارش کی۔بہت کم ہوتا ہے کہ اتنے پڑھے لکھے اور فہم فراست سے پر آدمی اپنے ذاتی رویے میں ایک اچھا انسان بھی ہو اور ملنسار بھی ہو۔ڈاکٹر مبارک کی یہ خوبی ہے کہ جتنے بڑے وہ مصنف ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان ہیں۔جتنے اعلیٰ مقام پر وہ فائز ہیں ، ان سے ملنے ، بات چیت کرنے کے دوران ایک بار بھی آپ کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ آپ پاکستان کے علمی مرتبے میں اعلیٰ مقام رکھنے والے کسی شخصیت سے بات کر رہے ہیں یا ایک عام آدمی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔دوران گفتگوایسا لگے گا کہ وہ آپ سے سیکھ رہے ہیں اور آپ کو سننا چاہتے ہیں۔ان کے پاس کوئی علمی رعب ، دبد با یا دکھاوا نہیں۔اگر ایسے کچھ اور لوگ پاکستان کو نصیب ہوں اور علمی تعلیمی ادارے ان سے استفادہ حاصل کریں تو ملک کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔بدقسمتی ہے کہ ایسا نہیں ہے لیکن ہماری خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر مبارک علی نے نہ صرف ہمیں ملنے کا وقت دیا بلکہ ہمیں لینے کیلئے خود تکلیف کر کے آئے اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر لاھور کے ایک اور بڑے دانشور،ترقی پسند اورانسان دوست وکیل اور مصنف محمود مرزا کے گھر لے گئے۔ان سے ایک مختصر سی نشست میں جو باتیں ہوئیں وہ دستک کے قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں۔بہت سے موضوعات تشنہ رہ گئے تاہم ان دونوں شخصیات کی فکر اور سوچ کو سننے اور پڑھنے سے امید کا ایک نیا سورج طلوع ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
سوال : آپ کے خیال ملک میں موجودہ سماج کو مذہبی انتہا پسندی کے رجحان سے کس طرح باہرنکا لا جاسکتا ہے ؟
ؔ ڈاکٹر مبار ک : سو سائٹی کو مذہبی انتہا پسندی سے نکالنا ابھی مشکل ہے کیو نکہ یہاں جتنے بھی روشن خیال اور لبرل طبقے تھے وہ شکست کھا چکے ہیں کہ جب تک سیاست اور مذہب الگ الگ نہیں ہو نگے یہ جھگڑے جو ں کے تو ں رہنگے کیو نکہ ریاست کو مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار بنانا ہمارے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی کام ہے ۔میڈیا اور ایجنسیوں کی سپورٹ کی بدولت ہی آج انتہا پسند لوگ نمایا ں ہو کر سامنے آرہے ہیں ورنہ طاہر القادری ایک گورنمٹ کالج میں پروفیسر ہو اکرتا تھا اور آج میڈیا کی سب سے زیادہ کوریج کاحقدار یہی ایک شخص نظر آرہا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جیسے کوئی اور مسئلہ ہے ہی نہیں۔
سوال : ڈاکٹر طاہر القادری کے نعرہ “سیاست نہیں ریاست بچاؤ “کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟
بیر سٹر محمو د مرزا :ریاست ہو تی ہی سیاست پر قائم ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری سیاست کر کے ریاست چاہتے ہیں جو کہ جمہوری عمل کے مخالف ہے ۔اسلام کی چار اہم باتیں ہیں۔ روایتی،اتحادی ،فلسفیانہ اور صوفیانہ۔ اگر فلسفیانہ اور صو فیانہ مل جائیں تو ان میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ یہ انسان دوستی پرقائم ہے۔یہ بھائی چارے ،رواداری کی تعلیم کو فروغ دیتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو تا اور اس قسم کے خیالات رکھنے والے سو سائٹی میں قابل قبول نہیں ہو تے۔ پاکستانی معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے اور یہاں لو گ ایک دوسرے کا نقطہ نظر برداشت نہیں کر پاتے۔
سوال: پاکستان میں اب تک جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پایا ؟
مرز:ا ریاست کی طاقت پر، اور سیاست پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔ یہ دونو ں ایک دوسرے سے متصل تصورات ہیں۔دوسرا جاگیر داروں اور سرمایہ داروں میں کبھی کوئی ٹکراؤ اور تصادم سامنے نہیں آیا بلکہ پاکستان کا جاگیر دار ہی صنعت کار بن گیا ہے۔
سوا ل: کیا اس نظام کی تبدیلی کے کو ئی امکانات ہیں تاکہ خالص جمہو ریت پروان چڑھ سکے اور عوام کی نمائندگی ہو سکے۔کیا اس میں ابھی صدیوں کا عرصہ درکار ہے ؟
مرزا : جتنے بھی لوگ جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے وہ پیپلز پارٹی کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہو ں کہ مو جو دہ حکومت جو کہ پیپلز پارٹی کی ہے وہ جاگیر دارانہ نظام کی حمایتی ہے ۔بظاہر وہ بھی اس کے خلاف نعرے لگاتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پنجاب کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں وہاں کا جاگیر دار صنعت کار ہو گیا ہے اور اگر بلو چستان کی بات کی جائے تو وہاں تو اب بھی صدیوں پرانا نظام رائج ہے ۔اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سماجی تبدیلی لانی ہو گی اور سیاسی قوت ایسی نہیں جو ا س چیز کو آگے بڑھا سکے۔
سوال: ڈاکٹر مبارک صاحب، آپ کی رائے کے مطابق لبرل فورسز شکست کھا چکی ہیں،وہ آگے نہیں آرہیں،سیاسی قوت بھی نہیں ہے جو اس چیز یا عمل کو آگے بڑھا سکے۔ کیا کوئی امید نظر نہیں آتی ؟
ڈاکٹر مبارک: ہم مکمل شکست تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ تبدیلی تو آتی ہے۔ ایک تبدیلی تو وہ ہے جو خود بہ خود ٹیکنا لوجی اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے ضرورت کے تحت آتی ہے ۔ایک تبدیلی وہ ہو تی ہے جو کہیں صحیح راستے کی طرف لے جاتی ہے۔ جب کہ “ایجنٹس آف چینج “(تبدیلی کے محرکات ) کے ذریعے وقوع پزیر ہو تی ہے ۔جو مثبت تبدیلی کے لیے کام کررہے ہیں ان کو ڈھونڈنا ہمارا کام ہے کیونکہ جب تک ہم ریاست کے ڈھانچے کو تبدیل نہیں کرینگے، شخصیت پرستی نہیں چھوڑیں گے ہمارے لےئے آگے کے راستے نہیں کھلیں گے۔ کیونکہ مو جودہ نظام میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جا گیر داروں کی تعداد جمہو ریت میں اور زیادہ بڑھ جا تی ہے اور بیو رو کریسی بھی انہی کے اختیار میں آجاتی ہے۔ اس لئے نظام کو بدلنا از حد ضروری ہے جو سیاسی جدوجہدکے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ مگر پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے منشور میں ریاستی نظام کی تبدیلی یا سماجی تبدیلی وغیرہ کا ذکر نہیں۔ اس لیے فی الحال تو یہ ممکن نظر نہیں آتا البتہ اگر لوگ اٹھ کھڑے ہو ں اور ان میں اتنا شعور آجائے کہ وہ تبدیلی لا سکیں تب ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
سوال : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گلو بلائزیشن اور سرمایہ داری جو تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے اس صورت میں بھی یہ سارے سسٹم مو جود رہیں گے؟
ڈاکٹر مبارک : سرمایہ دارانہ نظام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ یہ نظام بھی اپنے آپ کو تبدیل کرتا رہتا ہے، جیسے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ نظام مضبوط ہو نا شروع ہوا ہے۔روس کے زوال کے بعد تو یہ اور طاقتور ہو گیا ہے ۔لیکن اس کے خلاف جدو جہد بھی ان ممالک میں جاری ہے سوشل فورم بھی انہی ملکوں میں بنا اور ان کی مدد سے چلا،گو کہ اس کا اثر اتنا زیادہ نہیں ہوا کہ تبدیلی لا سکے ۔اس کے علاوہ آکیوپائے وال اسٹریٹ تحریک بھی زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو ئی لیکن یو رپی ممالک نے معاشی طور پر اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایک عام آدمی کو بنیادی ضرورتیں میسر ہیں۔ لیکن اگر ان ممالک مین حالات ذرا بھی شورش زدہ ہو نے لگیں اور وہ دیکھیں کہ عوام زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں تو وہ اپنے نظام میں تبدیلی لے آتے ہیں ۔یعنی یہ کو ئی انیسو یں صدی کی بات ہے جب جرمنی کے چانسلر وسپارک تھے۔ اس نے کہا تھا کہ اس سے پہلے کہ انقلاب آہے اور ہم اس سے متاثر ہو ں ہم خود انقلاب لے آتے ہیں ۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے مزدوروں کی نئی انشورنس کا سسٹم رائج کیا ان کے کام کے اوقات کو گھٹایا۔اس ہی طرح کی صورتحال بالکل انگلینڈ میں تھی۔ وہاں بھی انھوں نے نظام میں کئی اصلاحات کیں ۔ ووٹ کا حق ،جو پہلے سب کو نہیں تھا وہ دیا گیا اور عورتوں کو بھی یہ حق ملا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام میں بھی تبدیلی لانے کا عنصر مو جود ہے اور وہ وقت کے حساب سے تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہمارے یہاں جب تک نئے نظریات اورخیالات پیدا نہیں ہو نگے، ہماری سوسائٹی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی ۔ہمارے یہاں نئے خیالات اور نظریات اس لئے پیدا نہیں ہو رہے کہ ہمارے یہاں کو ئی فلسفی نہیں ہے، کو ئی سوشلسٹ نہیں ہے ،کو ئی انتھرولوجسٹ نہیں ہے۔ یعنی جو لوگ نئے نظریات اور خیالات پیدا کرتے ہیں وہ مو جو د نہیں ہیں ۔ہمارے یہاں یا تو شاعر ہیں یا پھرمذہبی رہنما ہیں ۔پوری اسلامی دنیا میں اب کو ئی فلسفی نہیں ہے ۔ابن سینا اور باقی جو تھے وہ پرانے ہیں اب کو ئی نہیں ہے ۔کچھ نہیں تو ہم شاعر کو فلسفی بنا دیتے ہیں ۔اقبال کو ہم فلسفی کہتے ہیں حالانکہ وہ فلسفی نہیں۔یو رپ میں روشن خیالی کی پوری ایک تحریک چلی ہے اور سترویں صدی سے سائنسی انقلاب آیا۔ پھر اس کے بعد روشن خیالی کی تحریک چلی ، اس کے بعد صنعتی انقلاب آیا۔فرانسیسی انقلاب آتا ہے وہ ایک بالکل نئے نظریات کو پیدا کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تصادم بھی پیدا ہو ا۔اور کنزرویٹیو اور لبرل کا خیال ملا اور یہاں سے ہی لیفٹ اینڈ رائٹ کی اصطلاحات شروع ہو تی ہیں ۔جرمنی کو دیکھیں کانٹ ،ہارڈے اورنطشتے وغیرہ یہاں بھی فلسفیوں کی بڑی تعداد مو جو د ہے۔قومو ں کو یہ چیزیں بناتی ہیں ۔ہمارا انحصار شاعروں پر ہے۔ فیض احمد فیض کو پڑھ لیا، حبیب جالیب کو پڑھ لیا اور جب ان کو اقبال بانو ترنم میں گاتی ہے تو بڑا اچھا لگتاہے یہ ساری چیزیں انٹرٹینمنٹ توہیں مگر شعور کو بیدار تو نہیں کر رہیں۔
سوال: اس ساری صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں کے کرنا چاہیے ؟آپ کے خیال میں سوسائٹی میں اس حوالے سے بحث و مباحثے ہونے چاہئیں ؟
ڈاکٹر مبارک: جب تک نئے خیالات ،افکار اور نظریات پیدانہیں ہوں گے، سو سائٹی جہاں کھڑی ہے وہیں کھڑی رہے گی۔ نوجوان نسل کواس طرف توجہ دینی چاہیے ،شاعری کو چھو ڑ کر سنجیدہ قسم کی چیزیں پڑھیں اور اپنی سوسائٹی کو سمجھیں کہ اس کے مسائل کیا ہیں ۔ہم باہر کے لوگوں کو پڑھ کر اپنی سو سائٹی کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہندوستان نے فلسفی پیدا کر لیے ہیں ان کے یہاں دانشورزبردست کردار ادا کر رہے ہیں جنہوں نے وہاں تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اتنا بدلہ ہے کہ اب بین الاقوامی طور پر ا ن کے نظریات کو تسلیم کر لیا جا تا ہے۔ مرتیاسین کیمبر ج چھوڑ کر ،شانتی نکیتن میں آکر کر چانسلر بنا ہو ا ہے ۔ پاکستان میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ مذہب کے دائرے میں رہ کر بات کریں۔ اس طرح آپ آگے نہیں بڑھ سکتے دیواریں آجاتی ہیں۔
سوال : اس حوالے سے کیا کوئی امید کی جاسکتی ہے کہ ہم ان حدود کو کبھی پار کرپائیں گے؟کوئی امید کی کرن؟
ڈاکٹر مبارک : اس سلسلے میں کو شش کرنی پڑے گی۔ اگر سو سائٹی میں تبدیلی کی خواہش ہے تو ظاہر ہے کہ سو سائٹی ایسے لو گوں کو پیدا کر ے اور اگر سوسائٹی میں تبدیلی کی خواہش نہیں ہے تو پھر یہ افکار اور نظریات بھی بیکار ہو تے ہیں ۔
مرزا: پاکستان میں بنیادی تبدیلی کے حالات پو ری طرح موجود ہیں۔غربت، محرومی،بے روزگاری ،بھوک، غرض تما م مسائل ہیں ما سوائے لیڈر شپ کے۔ لیکن اگراس ضمن میں کوئی اتحاد سامنے نہیں آیا تو شدید قسم کی انار کی ہو گی ۔دنیا میں بے شمار قسم کی دولت پیدا ہو ئی ہے ۔اب جوسرمایہ داری ہے وہ انڈسٹریل نہیں ہے وہ فنانشیل ہو گیا ہے اور فنانشیل مالیاتی ہے اس میں سرمایہ داری نہیں ہے۔ وہ اب سامراجیت بن چکا ہے۔دولت، زرعی ملکوں سے ٹیکنالو جیکل ایڈوانس ممالک میں منتقل ہو گئی ہے ۔جو مسائل فنانشیل کپیٹلزم نے پیدا کئے اس سے لو گوں میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ حکومت کے خزانے میں خسارہ ہو گیا ہے لوگ مقروض ہو گئے ہیں ۔ہماری مالیاتی سرمایہ داری بہت بڑے بحران میں مبتلا ہے ۔اگر ان میں سمجھ ہے توجیسے انڈسٹریل کپیٹلزم نے خود کو بچایا تھا اور ویلفےئر سسٹم متعارف کرایا تھا وہ اپنے نظام کو بچالیں گے اور باہر جب تبدیلی آئے گی تو اس کے عالمی اثرات ہو نگے اور پھر ہمارے ملک کے اندر بھی تبدیلی آئے گی ۔
سوال: یہاں لبرل فورسز کی بات ہوئی۔ یہ کیوں محسوس کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں کم ہو ئے ہیں پورے ملک کی بھی وہ ہی صورتحال ہے اس سے دوصوبے او رتیسرا بلوچستان بہت زیادہ متاثر ہو ا ہے ملٹری فورسز کی بات ہو رہی ہے لیکن ابھی تک وہاں پولیٹیکل فورسز مو جود ہیں ۔جو قیادت کی بات کرتا ہے اور ان کے خلاف بھی بات کرتا ہے ،سندھ میں بھی سیاسی قیادت کی بات ہو تی ہے کیا اس صورتحال کو بہترکر نے کے لیے ڈیموکریٹک فورسز کردار ادا نہیں سکتیں؟
مرزا: ان کے مسائل یہ تھے کہ ان کے حقوق کا معاملہ تھا ، تہذیب کا معاملہ تھا ۔اردو بولنے والے عدم تحفظ کا شکا ر تھے کہ ان کے پاس تحریک بھی تھی اور زبان بھی لیکن زمین نہیں تھی۔بعد میں انہوں نے اس دھرتی کو اپنا لیا لیکن انہوں نے اپنا وجو د اس کے باوجود الگ زبان کی بنیاد پر قائم رکھا، وہ مین سٹریم میں آجائیں، جھگڑا ختم ہو جائے گا ۔ان کی زبان پر تقسیم دوسری زبان بولنے والے قبول نہیں کرتے، پنجابی بھی نہیں پٹھان بھی قبول نہیں کرتے ۔سپریم کور ٹ کے فیصلے پر ہی لے لیں۔ کیا نئی حلقہ بندیاں ہوں گی یا نہیں ہوں گی۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی میں ایک جماعت نے اجارہ داری قائم کی ہو ئی ہے ۔
سوال ۔ اس وقت آپ کے پاس انٹیلی جنٹس کے چیمہ صاحب آئے، اس کے بعد آپ پر کمیو نسٹ کا دھبہ لگایا دھل گیا ؟
مرزا: وہ دھبہ صاف ہو گیا ۔جب وہ جا رہا تھا تو اس نے مجھے پروفیسر کہا۔اس وقت ضیا ء الحق کامارشل لاء لگا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ
ہمارے جیسے ملکوں میں مل جل کر جمہوری طریقے سے معاملات حل ہو سکتے ہیں مارشل لاء کے ذریعے سے نہیں۔چیمہ ایک پڑھا لکھا آدمی تھا وہ ایک پولیس افسر تھا اس نے بھی میری بات کی تائید کی کہ ہمارے ملک کے مسائل مارشل لاء سے حل نہیں ہونگے ۔ہماری اچھی انڈراسٹینڈنگ ہو گئی تھی کیو نکہ سیاست میں ہمارے نظریات ایک تھے ۔جب وہ جا رہا تھا انھیں چھوڑنے میرا ملا زم گیا، میں دفتر میں ہی رہا۔ چیمہ نے اپنے ڈی ایس پی سے کہا کہ یہ کمیونسٹ نہیں ہے یہ پروفیسر ہے ۔ میں نے کتاب میں لکھا تھا اور پنجابیوں سے کہا تھا کہ تمھیں یہ سمجھنا ہے کہ یہاں دوسرے زبانیں بولنے والوں ا ور دیگر صوبے کے لوگوں کی تہذیب ان کے حقوق اوران کے مسائل سمجھنے پڑیں گے اور ان کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ کرنی پڑے گی۔ ان کو صوبائی خود مختاری دینی پڑے گی اس کے بغیر ہمارا ملک کبھی مستحکم نہیں ہو گا اور ترقی نہیں کر سکے گا ۔
سندھ میں ایم آر ڈی کی جدوجہد پر میری رپورٹ ،،آج کا سندھ،، 1984 میں چھپی تھی اور 86میں کتاب آئی تھی۔میری تین رپورٹ شایع ہوئیں ۔84ء میں ایک رپورٹ لکھی تھی کہ اردو بولنے والوں کو شکایات سندھیوں سے نہیں،پنجابیوں سے بھی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ کراچی میں ہم رہیں اور سندھی ،پنجابی جو یہاں کام کرنے آتے ہیں ان کے خیال تھا کہ اس سے ان کے مواقع محدود ہو جائیں گے ۔
سوال: چالیس پچاس سالوں میں دنیامیں نظریاتی اور فطری طور پر تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں بہت سارے ممالک ٹوٹے ہیں کچھ نئے بنے ہیں ہمارے یہاں کو ئی تبدیلی نہیں آئی اس کے کیا اسباب ہیں ؟
مرزا: تبدیلی تب آتی جب ہم فطری اعتبار سے اس دور میں آتے۔ لیکن نظریاتی طور پر ہم اس دور میں نہیں ہیں یہ دور سائنس کا دور ہے۔ اس سائنسی دور سے پہلے ایک شعوری دور تھا چار ،پانچ سو سال پرانا ۔دنیا اب شعور سے سائنس میں داخل ہو رہی ہے لیکن ہم تو ابھی شعور کے دور میں بھی نہیں پہنچے۔ہم نے شعوری طور پر ترقی نہیں پائی۔ طالبان کی مثال لے لیں۔اقبال نے آج سے 80سال پہلے اسلام میں اتحاد کا نظریہ پیش کیا تھا لیکن وہ نظریہ کتاب میں چھپا ہو ا ہے اسکا سوسائٹی پر اطلاق نہیں ہوا۔طالبان وہ نظریہ بھی نہیں مانتے۔ہم نے پھر آئین میں جدید اور مذہبی نظریات کا امتزاج کیا ہے ۔73ء کے آئین کو دیکھ لیں ۔لینڈر یفارم کا فیصلہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کا فیصلہ دو ججوں نے کیا جن میں ایک شفیع الرحمن اور دوسرے وسیم حسن شاہ تھے۔ انھوں نے اس لینڈر یفارم کے قانون کو اجتہاد قرار دیااور کہا کہ یہ جائز ہے اور اس پر عمل ہو نا چاہیے۔ ہم تو اس دور میں داخل نہیں ہو ئے کہ جو فیصلہ اسمبلی کرتی ہے وہ اجتہاد ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مولویوں کے ساتھ ہو گئے جنہوں نے لینڈ ریفارمز کو غیر اسلامی قرار دیا تھاکہ اسلام میں جائیداد پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔
73ء کے آئین میں یہ بات نہیں تھی لیکن ضیاء الحق نے اسمبلی کے قانون کے اوپر ایک شریعت کور ٹ بنالی ۔73ء کا آئین اپنی اصل حالات میں نہیں ہے۔حکومت کہتی ہے کہ ہم نے 73ء کے آئین کو بحال کیا ہے لیکن جو تبدیلیا ں ضیاء الحق نے کی وہ مو جود ہیں وہ تبدیل نہیں کی گئیں ۔
ڈاکٹر مبارک: ریاست کا مذہب اسلام کہہ کر آپ نے خودبہ خود سارے اختیارات علماء کو دے دئیے آپ کے سماجی،معاشرتی اور ثقافتی مسائل علماء کی روشنی میں حل ہونگے۔
سوال: جس سرزمین میں بابا وارث شاہ ہوں، بابا بھلے شاہ ہو اور جہاں اتنے بڑے نام مو جو دہوں اور علم مو جو دہو وہاں مذہبی انتہا پسندی نے کیسے جنم لیا اور اس کا کیا انجام ہو سکتا ہے ؟
ڈاکٹر مبارک : مذہبی انتہا پسندی شہری متوسط طبقے کے اندر پیدا ہو ئی ہے۔دیہات میں رہنے والے لوگوں انتہا پسند نہیں تھے ۔اس کی ابتداء شہروں اور متوسط طبقے سے ہو ئی ہے جس نے وارث شاہ اور بھلے شاہ سب کو چھوڑ کر اقبال کو پڑھا ہے جن کی آئیڈیل ریاست تھی مذہبی علما ء بھی تھے۔جب انھیں جگہ ملی تو انھوں نے مو قع سے فائدہ اٹھایا ۔بابابھلے شاہ کو ریاست نے اس طرح ownکر لیا ہے کہ بھلے شاہ کے مزار کو انھوں نے مسجد بنالیا ہے۔